Sahih Bukhari#91
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عامِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ الْمَدِينِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ اللُّقَطَةِ ؟ فَقَالَ : اعْرِفْ وِكَاءَهَا ، أَوْ قَالَ : وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً ، ثُمَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ ، قَالَ : فَضَالَّةُ الْإِبِلِ ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ ، أَوْ قَالَ : احْمَرَّ وَجْهُهُ ، فَقَالَ : وَمَا لَكَ وَلَهَا ، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا ، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَرْعَى الشَّجَرَ ، فَذَرْهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا ، قَالَ : فَضَالَّةُ الْغَنَمِ ؟ قَالَ : لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ .
ایک شخص ( عمیر یا بلال ) نے رسول اللہ ﷺ سے پڑی ہوئی چیز کے بارے میں دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا ، اس کی بندھن پہچان لے یا فرمایا کہ اس کا برتن اور تھیلی ( پہچان لے ) پھر ایک سال تک اس کی شناخت ( کا اعلان ) کراؤ پھر ( اس کا مالک نہ ملے تو ) اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے سونپ دو ۔ اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ ( کے بارے میں ) کیا حکم ہے ؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے ۔ یا راوی نے یہ کہا کہ آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔ ( یہ سن کر ) آپ ﷺ نے فرمایا ۔ تجھے اونٹ سے کیا واسطہ ؟ اس کے ساتھ خود اس کی مشک ہے اور اس کے ( پاؤں کے ) سم ہیں ۔ وہ خود پانی پر پہنچے گا اور خود پی لے گا اور خود درخت پر چرے گا ۔ لہٰذا اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک مل جائے ۔ اس نے کہا کہ اچھا گم شدہ بکری کے ( بارے میں ) کیا ارشاد ہے ؟ آپ نے فرمایا ، وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی ، ورنہ بھیڑیئے کی ( غذا ) ہے ۔
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: A man asked the Prophet about the picking up of a Luqata (fallen lost thing). The Prophet replied, Recognize and remember its tying material and its container, and make public announcement (about it) for one year, then utilize it but give it to its owner if he comes. Then the person asked about the lost camel. On that, the Prophet got angry and his cheeks or his Face became red and he said, You have no concern with it as it has its water container, and its feet and it will reach water, and eat (the leaves) of trees till its owner finds it. The man then asked about the lost sheep. The Prophet replied, It is either for you, for your brother (another person) or for the wolf.
Sahih Bukhari#92
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا ، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ : سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ ، قَالَ رَجُلٌ : مَنْ أَبِي ؟ قَالَ : أَبُوكَ حُذَافَةُ ، فَقَامَ آخَرُ ، فَقَالَ : مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ : أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .
رسول اللہ ﷺ سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ ﷺ کو برا معلوم ہوا اور جب ( اس قسم کے سوالات کی ) آپ ﷺ پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا ۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا ( اچھا اب ) مجھ سے جو چاہو پوچھو ۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، تیرا باپ حذاف ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے ۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ( ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں ) اللہ سے توبہ کرتے ہیں ۔
Narrated Abu Musa: The Prophet was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted, the Prophet got angry. He then said to the people, Ask me anything you like. A man asked, Who is my father? The Prophet replied, Your father is Hudhafa. Then another man got up and said, Who is my father, O Allah’s Apostle ? He replied, Your father is Salim, Maula (the freed slave) of Shaiba. So when `Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet he said, O Allah’s Apostle! We repent to Allah (Our offending you).
Sahih Bukhari#93
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ ، فَقَالَ : مَنْ أَبِي ؟ فَقَالَ : أَبُوكَ حُذَافَةُ ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي ، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا ، فَسَكَتَ .
( ایک دن ) رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ حضور میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، حذافہ ، پھر آپ ﷺ نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے ، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے ۔
Narrated Anas bin Malik: One day Allah’s Apostle came out (before the people) and `Abdullah bin Hudhafa stood up and asked (him) Who is my father? The Prophet replied, Your father is Hudhafa. The Prophet told them repeatedly (in anger) to ask him anything they liked. `Umar knelt down before the Prophet and said thrice, We accept Allah as (our) Lord and Islam as (our) religion and Muhammad as (our) Prophet. After that the Prophet became silent.
Sahih Bukhari#94
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا ، وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا .
جب آپ سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا ۔
Narrated Anas: Whenever the Prophet asked permission to enter, he knocked the door thrice with greeting and whenever he spoke a sentence (said a thing) he used to repeat it thrice. (See Hadith No. 261, Vol. 8).
Sahih Bukhari#95
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَارُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ ، وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا .
جب آپ کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار لوٹاتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا ۔ اور جب کچھ لوگوں کے پاس آپ تشریف لاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے ۔
Narrated Anas: Whenever the Prophet spoke a sentence (said a thing), he used to repeat it thrice so that the people could understand it properly from him and whenever he asked permission to enter, (he knocked the door) thrice with greeting.
Sahih Bukhari#96
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ ، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلَاةَ صَلَاةَ الْعَصْرِ وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا ، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ : وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا .
ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ پھر آپ ہمارے قریب پہنچے ۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے ۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی ( جو خشک رہ جائیں ) خرابی ہے ۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ ۔
Narrated `Abdullah bin `Amr: Once Allah’s Apostle remained behind us in a journey. He joined us while we were performing ablution for the `Asr prayer which was over-due. We were just passing wet hands over our feet (not washing them properly) so the Prophet addressed us in a loud voice and said twice or thrice, Save your heels from the fire.
Sahih Bukhari#97
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ ، قَالَ : قَالَ عَامِرٌ الشَّعْبِيُّ : حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ثَلَاثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ ، رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالْعَبْدُ الْمَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ، ثُمَّ قَالَ عَامِرٌ : أَعْطَيْنَاكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ قَدْ كَانَ يُرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ .
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد ﷺ پر ایمان لائے اور ( دوسرے ) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ ( دونوں ) کا حق ادا کرے اور ( تیسرے ) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو ۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے ، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے ، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے ، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے ۔ پھر عامر نے ( صالح بن حیان سے ) کہا کہ ہم نے یہ حدیث تمہیں بغیر اجرت کے سنا دی ہے ( ورنہ ) اس سے کم حدیث کے لیے مدینہ تک کا سفر کیا جاتا تھا ۔
Narrated Abu Burda’s father: Allah’s Apostle said Three persons will have a double reward: 1. A Person from the people of the scriptures who believed in his prophet (Jesus or Moses) and then believed in the Prophet Muhammad (i .e. has embraced Islam). 2. A slave who discharges his duties to Allah and his master. 3. A master of a woman-slave who teaches her good manners and educates her in the best possible way (the religion) and manumits her and then marries her.
Sahih Bukhari#98
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ : أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَوْ قَالَ عَطَاءٌ أَشْهَدُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُرْطَ وَالْخَاتَمَ ، وَبِلَالٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ : عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، وَقَالَ : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
میں رسول اللہ ﷺ پر گواہی دیتا ہوں ، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی ﷺ ( ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے ) نکلے اور آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو ( خطبہ اچھی طرح ) نہیں سنائی دیا ۔ تو آپ نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا ( یہ وعظ سن کر ) کوئی عورت بالی ( اور کوئی عورت ) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں ( یہ چیزیں ) لینے لگے ۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا ، انہوں نے عطاء سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا کہ میں آنحضرت ﷺ پر گواہی دیتا ہوں ( اس میں شک نہیں ہے ) ۔ امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے ۔
Narrated Ibn ‘Abbas: Once Allah’s Apostle came out while Bilal was accompanying him. He went towards the women thinking that they had not heard him (i.e. his sermon). So he preached them and ordered them to pay alms. (Hearing that) the women started giving alms; some donated their ear-rings, some gave their rings and Bilal was collecting them in the corner of his garment.
Sahih Bukhari#99
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ : قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ .
انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اے ابوہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا ۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی ۔ سنو ! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا ، جو سچے دل سے یا سچے جی سے «لا إله إلا الله» کہے گا ۔
Narrated Abu Huraira: I said: O Allah’s Apostle! Who will be the luckiest person, who will gain your intercession on the Day of Resurrection? Allah’s Apostle said: O Abu Huraira! I have thought that none will ask me about it before you as I know your longing for the (learning of) Hadiths. The luckiest person who will have my intercession on the Day of Resurrection will be the one who said sincerely from the bottom of his heart None has the right to be worshipped but Allah.
Sahih Bukhari#100
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا ، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ، قَالَ الْفِرَبْرِيُّ : حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامٍ نَحْوَهُ .
آپ ﷺ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ فربری نے کہا ہم سے عباس نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتیبہ نے ، کہا ہم سے جریر نے ، انہوں نے ہشام سے مانند اس حدیث کے ۔
Narrated `Abdullah bin `Amr bin Al-`As: I heard Allah’s Apostle saying, Allah does not take away the knowledge, by taking it away from (the hearts of) the people, but takes it away by the death of the religious learned men till when none of the (religious learned men) remains, people will take as their leaders ignorant persons who when consulted will give their verdict without knowledge. So they will go astray and will lead the people astray.