Sahih Bukhari 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 Islam

Sahih Bukhari#111

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَلِيِّ : هَلْ عِنْدَكُمْ كِتَابٌ ؟ قَالَ : لَا ، إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِيَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ، قَالَ : قُلْتُ ، فَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ ، وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ .

میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ( اور بھی ) کتاب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں ، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے ۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے ۔ میں نے پوچھا ، اس صحیفے میں کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے ۔

Narrated Ash-Shu`bi: Abu Juhaifa said, I asked `Ali, ‘Have you got any book (which has been revealed to the Prophet apart from the Qur’an)?’ `Ali replied, ‘No, except Allah’s Book or the power of understanding which has been bestowed (by Allah) upon a Muslim or what is (written) in this sheet of paper (with me).’ Abu Juhaifa said, I asked, ‘What is (written) in this sheet of paper?’ `Ali replied, it deals with The Diyya (compensation (blood money) paid by the killer to the relatives of the victim), the ransom for the releasing of the captives from the hands of the enemies, and the law that no Muslim should be killed in Qisas (equality in punishment) for the killing of (a disbeliever).

Sahih Bukhari#112

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِيلَ ، شَكَّ أَبُو عَبْد اللَّهِ ، كَذَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ : وَاجْعَلُوهُ عَلَى الشَّكِّ الْفِيلَ أَوِ الْقَتْلَ ، وَغَيْرُهُ يَقُولُ : الْفِيلَ ، وَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنِينَ ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلُّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي ، أَلَا وَإِنَّهَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ لَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا ، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا ، وَلَا تُلْتَقَطُ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ ، فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ ، إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ ، فَقَالَ : اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَالَ : اكْتُبُوا لِأَبِي فُلَانٍ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ : إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِلَّا الْإِذْخِرَ إِلَّا الْإِذْخِرَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : يُقَالُ يُقَادُ بِالْقَافِ ، فَقِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ : أَيُّ شَيْءٍ كَتَبَ لَهُ ، قَالَ : كَتَبَ لَهُ هَذِهِ الْخُطْبَةَ .

قبیلہ خزاعہ ( کے کسی شخص ) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا ، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے ، رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر دی گئی ، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو ، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے «القتل» اور «الفيل» کہا ہے ۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ «الفيل» کہتے ہیں ۔ ( پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمان کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ ( مکہ ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا ۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ ( آئندہ ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا ۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے ۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے ، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس شے کا تعارف کرا دے گا ۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو ( اس کے عزیزوں کو ) اختیار ہے دو باتوں کا ، یا دیت لیں یا بدلہ ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی ( ابوشاہ نامی ) آیا اور کہنے لگا ( یہ مسائل ) میرے لیے لکھوا دیجیئے ۔ تب آپ نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے ( یہ مسائل ) لکھ دو ۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مگر اذخر ( یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے ) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں ۔ ( یا مٹی ملا کر ) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ( ہاں ) مگر اذخر ، مگر اذخر ۔

Narrated Abu Huraira: In the year of the Conquest of Mecca, the tribe of Khuza`a killed a man from the tribe of Bani Laith in revenge for a killed person, belonging to them. They informed the Prophet about it. So he rode his Rahila (she-camel for riding) and addressed the people saying, Allah held back the killing from Mecca. (The sub-narrator is in doubt whether the Prophet said elephant or killing, as the Arabic words standing for these words have great similarity in shape), but He (Allah) let His Apostle and the believers over power the infidels of Mecca. Beware! (Mecca is a sanctuary) Verily! Fighting in Mecca was not permitted for anyone before me nor will it be permitted for anyone after me. It (war) in it was made legal for me for few hours or so on that day. No doubt it is at this moment a sanctuary, it is not allowed to uproot its thorny shrubs or to uproot its trees or to pick up its Luqat (fallen things) except by a person who will look for its owner (announce it publicly). And if somebody is killed, then his closest relative has the right to choose one of the two– the blood money (Diyya) or retaliation having the killer killed. In the meantime a man from Yemen came and said, O Allah’s Apostle! Get that written for me. The Prophet ordered his companions to write that for him. Then a man from Quraish said, Except Al-Idhkhir (a type of grass that has good smell) O Allah’s Apostle, as we use it in our houses and graves. The Prophet said, Except Al-Idhkhir i.e. Al-Idhkhir is allowed to be plucked.

Sahih Bukhari#113

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، قَالَ : أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَخِيهِ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ : مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلَا أَكْتُبُ ، تَابَعَهُ مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .

میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا ۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۔ دوسری سند سے معمر نے وہب بن منبہ کی متابعت کی ، وہ ہمام سے روایت کرتے ہیں ، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ۔

Narrated Abu Huraira: There is none among the companions of the Prophet who has narrated more Hadiths than I except `Abdullah bin `Amr (bin Al-`As) who used to write them and I never did the same.

Sahih Bukhari#114

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ ، قَالَ : ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ ، قَالَ عُمَرُ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا ، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ ، قَالَ : قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ : إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ .

جب نبی ﷺ کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں ، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( لوگوں سے ) کہا کہ اس وقت آپ ﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں ( ہدایت کے لیے ) کافی ہے ۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو ، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بے شک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے ( وہ چیز جو ) ہمارے اور رسول ﷺ کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی ۔

Narrated ‘Ubaidullah bin `Abdullah: Ibn `Abbas said, When the ailment of the Prophet became worse, he said, ‘Bring for me (writing) paper and I will write for you a statement after which you will not go astray.’ But `Umar said, ‘The Prophet is seriously ill, and we have got Allah’s Book with us and that is sufficient for us.’ But the companions of the Prophet differed about this and there was a hue and cry. On that the Prophet said to them, ‘Go away (and leave me alone). It is not right that you should quarrel in front of me. Ibn `Abbas came out saying, It was most unfortunate (a great disaster) that Allah’s Apostle was prevented from writing that statement for them because of their disagreement and noise. (Note: It is apparent from this Hadith that Ibn `Abbas had witnessed the event and came out saying this statement. The truth is not so, for Ibn `Abbas used to say this statement on narrating the Hadith and he had not witnessed the event personally. See Fath Al-Bari Vol. 1, p.220 footnote.) (See Hadith No. 228, Vol. 4).

Sahih Bukhari#115

حَدَّثَنَا صَدَقَةُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ هِنْدٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَة ، وَعَمْرٍو ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ هِنْدٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : اسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ ، مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنَ الْفِتَنِ ، وَمَاذَا فُتِحَ مِنَ الْخَزَائِنِ ، أَيْقِظُوا صَوَاحِبَاتِ الْحُجَرِ ، فَرُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ .

ایک رات نبی کریم ﷺ نے بیدار ہوتے ہی فرمایا کہ سبحان اللہ ! آج کی رات کس قدر فتنے اتارے گئے ہیں اور کتنے ہی خزانے بھی کھولے گئے ہیں ۔ ان حجرہ والیوں کو جگاؤ ۔ کیونکہ بہت سی عورتیں ( جو ) دنیا میں ( باریک ) کپڑا پہننے والی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی ۔

Narrated Um Salama: One night Allah’s Apostle got up and said, Subhan Allah! How many afflictions have been descended tonight and how many treasures have been disclosed! Go and wake the sleeping lady occupants of these dwellings (his wives) up (for prayers). A well-dressed (soul) in this world may be naked in the Hereafter.

Sahih Bukhari#116

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدِ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ ، فَقَالَ : أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ .

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں ( ایک دفعہ ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی ۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا ۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Once the Prophet led us in the `Isha’ prayer during the last days of his life and after finishing it (the prayer) (with Taslim) he said: Do you realize (the importance of) this night? Nobody present on the surface of the earth tonight will be living after the completion of one hundred years from this night.

Sahih Bukhari#117

حَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، ثُمَّ نَامَ ، ثُمَّ قَامَ ، ثُمَّ قَالَ : نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا ، ثُمَّ قَامَ ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ .

ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم ﷺ کے پاس گزاری اور نبی اکرم ﷺ ( اس دن ) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے ۔ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی ۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت ( نماز نفل ) پڑھ کر آپ سو گئے ، پھر اٹھے اور فرمایا کہ ( ابھی تک یہ ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا ۔ پھر آپ ( نماز پڑھنے ) کھڑے ہو گئے اور میں ( بھی وضو کر کے ) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا ۔ تو آپ ﷺ نے مجھے دائیں جانب ( کھڑا ) کر لیا ، تب آپ ﷺ نے پانچ رکعت پڑھیں ۔ پھر دو پڑھیں ، پھر آپ ﷺ سو گئے ۔ یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی ، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے ( باہر ) تشریف لے آئے ۔

Narrated Ibn `Abbas: I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna bint Al-Harith (the wife of the Prophet ) while the Prophet was there with her during her night turn. The Prophet offered the `Isha’ prayer (in the mosque), returned home and after having prayed four rak`at, he slept. Later on he got up at night and then asked whether the boy (or he used a similar word) had slept? Then he got up for the prayer and I stood up by his left side but he made me stand to his right and offered five rak`at followed by two more rak`at. Then he slept and I heard him snoring and then (after a while) he left for the (Fajr) prayer.

Sahih Bukhari#118

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : إِنَّ النَّاسَ يَقُولُونَ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، وَلَوْلَا آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا ، ثُمَّ يَتْلُو إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ إِلَى قَوْلِهِ الرَّحِيمُ سورة البقرة آية 159 – 160 ، إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ والصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الْعَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ ، وَيَحْضُرُ مَا لَا يَحْضُرُونَ ، وَيَحْفَظُ مَا لَا يَحْفَظُونَ .

لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت حدیثیں بیان کرتے ہیں اور ( میں کہتا ہوں ) کہ قرآن میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا ۔ پھر یہ آیت پڑھی ، ( جس کا ترجمہ یہ ہے ) کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی دلیلوں اور آیتوں کو چھپاتے ہیں ( آخر آیت ) «رحيم‏» تک ۔ ( واقعہ یہ ہے کہ ) ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے اور انصار بھائی اپنی جائیدادوں میں مشغول رہتے اور ابوہریرہ ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کر رہتا ( تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پری سے بھی بےفکری رہے ) اور ( ان مجلسوں میں ) حاضر رہتا جن ( مجلسوں ) میں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ ( باتیں ) محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے ۔

Narrated Abu Huraira: People say that I have narrated many Hadiths (The Prophet’s narration). Had it not been for two verses in the Qur’an, I would not have narrated a single Hadith, and the verses are: Verily those who conceal the clear sign and the guidance which We have sent down . . . (up to) Most Merciful. (2:159-160). And no doubt our Muhajir (emigrant) brothers used to be busy in the market with their business (bargains) and our Ansari brothers used to be busy with their property (agriculture). But I (Abu Huraira) used to stick to Allah’s Apostle contented with what will fill my stomach and I used to attend that which they used not to attend and I used to memorize that which they used not to memorize.

Sahih Bukhari#119

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَبُو مُصْعَبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ ، قَالَ : ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ ، قَالَ : فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : ضُمَّهُ ، فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ بِهَذَا ، أَوْ قَالَ : غَرَفَ بِيَدِهِ فِيهِ .

میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں آپ ﷺ سے بہت باتیں سنتا ہوں ، مگر بھول جاتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ ، میں نے اپنی چادر پھیلائی ، آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی چلو بنائی اور ( میری چادر میں ڈال دی ) فرمایا کہ ( چادر کو ) لپیٹ لو ۔ میں نے چادر کو ( اپنے بدن پر ) لپیٹ لیا ، پھر ( اس کے بعد ) میں کوئی چیز نہیں بھولا ۔ ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا ، ان سے ابن ابی فدیک نے اسی طرح بیان کیا کہ ( یوں ) فرمایا کہ اپنے ہاتھ سے ایک چلو اس ( چادر ) میں ڈال دی ۔

Narrated Abu Huraira: I said to Allah’s Apostle I hear many narrations (Hadiths) from you but I forget them. Allah’s Apostle said, Spread your Rida’ (garment). I did accordingly and then he moved his hands as if filling them with something (and emptied them in my Rida’) and then said, Take and wrap this sheet over your body. I did it and after that I never forgot any thing. Narrated Ibrahim bin Al-Mundhir: Ibn Abi Fudaik narrated the same as above (Hadith…119) but added that the Prophet had moved his hands as if filling them with something and then he emptied them in the Rida’ of Abu Huraira.

Sahih Bukhari#120

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ .

میں نے رسول اللہ ﷺ سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں ، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے ۔

Narrated Abu Huraira: I have memorized two kinds of knowledge from Allah’s Apostle . I have propagated one of them to you and if I propagated the second, then my pharynx (throat) would be cut (i.e. killed).

Leave a Comment