Sahih Bukhari#121
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ جَرِيرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ : اسْتَنْصِتِ النَّاسَ ، فَقَالَ : لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ .
نبی ﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو ( تاکہ وہ خوب سن لیں ) پھر فرمایا ، لوگو ! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو ۔
Narrated Jarir: The Prophet said to me during Hajjat-al-Wida`: Let the people keep quiet and listen. Then he said (addressing the people), Do not (become infidels) revert to disbelief after me by striking the necks (cutting the throats) of one another (killing each other).
Sahih Bukhari#122
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ ، فَقَالَ : كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ ؟ فَقَالَ : أَنَا أَعْلَمُ ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ ، قَالَ : يَا رَبِّ ، وَكَيْفَ بِهِ ؟ فَقِيلَ لَهُ : احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ ، فَإِذَا فَقَدْتَهُ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ ، وَانْطَلَقَ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ وَحَمَلَا حُوتًا فِي مِكْتَلٍ ، حَتَّى كَانَا عِنْدَ الصَّخْرَةِ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا وَنَامَا ، فَانْسَلَّ الْحُوتُ مِنَ الْمِكْتَلِ ، فَاتَّخَذَ سَبِلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ، وَكَانَ لِمُوسَى وَفَتَاهُ عَجَبًا ، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِهِمَا وَيَوْمَهُمَا ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ، قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ : آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا ، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى مَسًّا مِنَ النَّصَبِ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ ، فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ : أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ ، قَالَ مُوسَى : ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي ، فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا ، فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى بِثَوْبٍ أَوْ قَالَ تَسَجَّى بِثَوْبِهِ فَسَلَّمَ مُوسَى ، فَقَالَ الْخَضِرُ : وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ ، فَقَالَ : أَنَا لمُوسَى ، فَقَالَ مُوسَى : بَنِي إِسْرَائِيلَ ، قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا ؟ قَالَ : إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا يَا مُوسَى ، إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ ، وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ ، قَالَ : سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا ، فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ لَيْسَ لَهُمَا سَفِينَةٌ ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا ، فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ ، فَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ فِي الْبَحْرِ ، فَقَالَ الْخَضِرُ : يَا مُوسَى ، مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَنَقْرَةِ هَذَا الْعُصْفُورِ فِي الْبَحْرِ ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ ، فَقَالَ مُوسَى : قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ، قَالَ : لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ ، فَكَانَتِ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا ، فَانْطَلَقَا فَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ مِنْ أَعْلَاهُ فَاقْتَلَعَ رَأْسَهُ بِيَدِهِ ، فَقَالَ مُوسَى : أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ ، قَالَ : أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ، قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ : وَهَذَا أَوْكَدُ فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ ، قَالَ الْخَضِرُ : بِيَدِهِ فَأَقَامَهُ ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى : لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا ، قَالَ : هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا لَوْ صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا .
نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ( جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ ) موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے ، ( یہ سن کر ) ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے کہ اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے ۔ ہم سے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا کہ ( ایک روز ) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا ، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں ۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو خدا کے حوالے کیوں نہ کر دیا ۔ تب اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ دریاؤں کے سنگم پر ہے ۔ ( جہاں فارس اور روم کے سمندر ملتے ہیں ) وہ تجھ سے زیادہ عالم ہے ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے پروردگار ! میری ان سے ملاقات کیسے ہو ؟ حکم ہوا کہ ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لو ، پھر جہاں تم اس مچھلی کو گم کر دو گے تو وہ بندہ تمہیں ( وہیں ) ملے گا ۔ تب موسیٰ علیہ السلام چلے اور ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لے لیا اور انہوں نے زنبیل میں مچھلی رکھ لی ، جب ( ایک ) پتھر کے پاس پہنچے ، دونوں اپنے سر اس پر رکھ کر سو گئے اور مچھلی زنبیل سے نکل کر دریا میں اپنی راہ بناتی چلی گئی اور یہ بات موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے بےحد تعجب کی تھی ، پھر دونوں باقی رات اور دن میں ( جتنا وقت باقی تھا ) چلتے رہے ، جب صبح ہوئی موسیٰ علیہ السلام نے خادم سے کہا ، ہمارا ناشتہ لاؤ ، اس سفر میں ہم نے ( کافی ) تکلیف اٹھائی ہے اور موسیٰ علیہ السلام بالکل نہیں تھکے تھے ، مگر جب اس جگہ سے آگے نکل گئے ، جہاں تک انہیں جانے کا حکم ملا تھا ، تب ان کے خادم نے کہا ، کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم صخرہ کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا ذکر بھول گیا ، ( بقول بعض صخرہ کے نیچے آب حیات تھا ، وہ اس مچھلی پر پڑا ، اور وہ زندہ ہو کر بقدرت الٰہی دریا میں چل دی ) ( یہ سن کر ) موسیٰ علیہ السلام بولے کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جس کی ہمیں تلاش تھی ، تو وہ پچھلے پاؤں واپس ہو گئے ، جب پتھر تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے ( موجود ہے ) موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا ، خضر علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری سر زمین میں سلام کہاں ؟ پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں موسیٰ ( علیہ السلام ) ہوں ، خضر بولے کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر کہا کہ کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں ، تاکہ آپ مجھے ہدایت کی وہ باتیں بتلاؤ جو خدا نے خاص آپ ہی کو سکھلائی ہیں ۔ خضر علیہ السلام بولے کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ۔ اسے موسیٰ ! مجھے اللہ نے ایسا علم دیا ہے جسے تم نہیں جانتے اور تم کو جو علم دیا ہے اسے میں نہیں جانتا ۔ ( اس پر ) موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پاؤ گے اور میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔ پھر دونوں دریا کے کنارے کنارے پیدل چلے ، ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی کہ ایک کشتی ان کے سامنے سے گزری ، تو کشتی والوں سے انہوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو ۔ خضر علیہ السلام کو انہوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کر لیا ، اتنے میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی ، پھر سمندر میں اس نے ایک یا دو چونچیں ماریں ( اسے دیکھ کر ) خضر علیہ السلام بولے کہ اے موسیٰ علیہ السلام ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہو گا جتنا اس چڑیا نے سمندر ( کے پانی ) سے پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ نکال ڈالا ، موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ان لوگوں نے تو ہمیں کرایہ لیے بغیر ( مفت میں ) سوار کیا اور آپ نے ان کی کشتی ( کی لکڑی ) اکھاڑ ڈالی تاکہ یہ ڈوب جائیں ، خضر علیہ السلام بولے کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ؟ ( اس پر ) موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھول پر میری گرفت نہ کرو ۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھول کر یہ پہلا اعتراض کیا تھا ۔ پھر دونوں چلے ( کشتی سے اتر کر ) ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ، خضر علیہ السلام نے اوپر سے اس کا سر پکڑ کر ہاتھ سے اسے الگ کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے ایک بےگناہ بچے کو بغیر کسی جانی حق کے مار ڈالا ( غضب ہو گیا ) خضر علیہ السلام بولے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے ۔ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ اس کلام میں پہلے سے زیادہ تاکید ہے ( کیونکہ پہلے کلام میں لفظ لک نہیں کہا تھا ، اس میں لک زائد کیا ، جس سے تاکید ظاہر ہے ) پھر دونوں چلتے رہے ۔ حتیٰ کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے ، ان سے کھانا لینا چاہا ۔ انہوں نے کھانا کھلانے سے انکار کر دیا ۔ انہوں نے وہیں دیکھا کہ ایک دیوار اسی گاؤں میں گرنے کے قریب تھی ۔ خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسے سیدھا کر دیا ۔ موسیٰ علیہ السلام بول اٹھے کہ اگر آپ چاہتے تو ( گاؤں والوں سے ) اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے ۔ خضر علیہ السلام نے کہا کہ ( بس اب ) ہم اور تم میں جدائی کا وقت آ گیا ہے ۔ جناب محبوب کبریا رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ، ہماری تمنا تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کچھ دیر اور صبر کرتے تو مزید واقعات ان دونوں کے بیان کیے جاتے ( اور ہمارے سامنے روشنی میں آتے ، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عجلت نے اس علم لدنی کے سلسلہ کو جلد ہی منقطع کرا دیا ) محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن خشرم نے یہ حدیث بیان کی ، ان سے سفیان بن عیینہ نے پوری کی پوری بیان کی ۔
Narrated Sa`id bin Jubair: I said to Ibn Abbas, Nauf-Al-Bakali claims that Moses (the companion of Khadir) was not the Moses of Bani Israel but he was another Moses. Ibn `Abbas remarked that the enemy of Allah (Nauf) was a liar. Narrated Ubai bin Ka`b: The Prophet said, Once the Prophet Moses stood up and addressed Bani Israel. He was asked, Who is the most learned man amongst the people. He said, I am the most learned. Allah admonished Moses as he did not attribute absolute knowledge to Him (Allah). So Allah inspired to him At the junction of the two seas there is a slave amongst my slaves who is more learned than you. Moses said, O my Lord! How can I meet him? Allah said: Take a fish in a large basket (and proceed) and you will find him at the place where you will lose the fish. So Moses set out along with his (servant) boy, Yusha bin Noon and carried a fish in a large basket till they reached a rock, where they laid their heads (i.e. lay down) and slept. The fish came out of the basket and it took its way into the sea as in a tunnel. So it was an amazing thing for both Moses and his (servant) boy. They proceeded for the rest of that night and the following day. When the day broke, Moses said to his (servant) boy: Bring us our early meal. No doubt, we have suffered much fatigue in this journey. Moses did not get tired till he passed the place about which he was told. There the (servant) boy told Moses, Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish. Moses remarked, That is what we have been seeking. So they went back retracing their footsteps, till they reached the rock. There they saw a man covered with a garment (or covering himself with his own garment). Moses greeted him. Al-Khadir replied saying, How do people greet each other in your land? Moses said, I am Moses. He asked, The Moses of Bani Israel? Moses replied in the affirmative and added, May I follow you so that you teach me of that knowledge which you have been taught. Al-Khadir replied, Verily! You will not be able to remain patient with me, O Moses! I have some of the knowledge of Allah which He has taught me and which you do not know, while you have some knowledge which Allah has taught you which I do not know. Moses said, Allah willing, you will find me patient and I will disobey no order of yours. So both of them set out walking along the seashore, as they did not have a boat. In the meantime a boat passed by them and they requested the crew of the boat to take them on board. The crew recognized Al-Khadir and took them on board without fare. Then a sparrow came and stood on the edge of the boat and dipped its beak once or twice in the sea. Al-Khadir said: O Moses! My knowledge and your knowledge have not decreased Allah’s knowledge except as much as this sparrow has decreased the water of the sea with its beak. Al- Khadir went to one of the planks of the boat and plucked it out. Moses said, These people gave us a free lift but you have broken their boat and scuttled it so as to drown its people. Al-Khadir replied, Didn’t I tell you that you will not be able to remain patient with me. Moses said, Call me not to account for what I forgot. The first (excuse) of Moses was that he had forgotten. Then they proceeded further and found a boy playing with other boys. Al-Khadir took hold of the boy’s head from the top and plucked it out with his hands (i.e. killed him). Moses said, Have you killed an innocent soul who has killed none. Al-Khadir replied, Did I not tell you that you cannot remain patient with me? Then they both proceeded till when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found there a wall on the point of collapsing. Al-Khadir repaired it with his own hands. Moses said, If you had wished, surely you could have taken wages for it. Al-Khadir replied, This is the parting between you and me. The Prophet added, May Allah be Merciful to Moses! Would that he could have been more patient to learn more about his story with Al-Khadir.
Sahih Bukhari#123
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا الْقِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً ، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ ، قَالَ : وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا ، فَقَالَ : مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ .
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ کی راہ میں لڑائی کی کیا صورت ہے ؟ کیونکہ ہم میں سے کوئی غصہ کی وجہ سے اور کوئی غیرت کی وجہ سے جنگ کرتا ہے تو آپ ﷺ نے اس کی طرف سر اٹھایا ، اور سر اسی لیے اٹھایا کہ پوچھنے والا کھڑا ہوا تھا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے ، وہ اللہ کی راہ میں ( لڑتا ) ہے ۔
Narrated Abu Musa: A man came to the Prophet and asked, O Allah’s Apostle! What kind of fighting is in Allah’s cause? (I ask this), for some of us fight because of being enraged and angry and some for the sake of his pride and haughtiness. The Prophet raised his head (as the questioner was standing) and said, He who fights so that Allah’s Word (Islam) should be superior, then he fights in Allah’s cause.
Sahih Bukhari#124
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ، قَالَ : ارْمِ وَلَا حَرَجَ ، قَالَ آخَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ ، قَالَ : انْحَرْ وَلَا حَرَجَ ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ : افْعَلْ وَلَا حَرَجَ .
میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ ﷺ سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( اب ) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا ۔ دوسرے نے کہا ، یا رسول اللہ ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( اب ) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں ۔ ( اس وقت ) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی ، آپ سے پوچھا گیا ، آپ ﷺ نے یہ ہی جواب دیا ( اب ) کر لو کچھ حرج نہیں ۔
Narrated `Abdullah bin `Ammar: I saw the Prophet near the Jamra and the people were asking him questions (about religious problems). A man asked, O Allah’s Apostle! I have slaughtered the Hadi (animal) before doing the Rami. The Prophet replied, Do the Rami (now) and there is no harm. Another person asked, O Allah’s Apostle! I got my head shaved before slaughtering the animal. The Prophet replied, Do the slaughtering (now) and there is no harm. So on that day, when the Prophet was asked about anything as regards the ceremonies of Hajj performed before or after its due time his reply was, Do it (now) and there is no harm.
Sahih Bukhari#125
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ ، قَالَ : ارْمِ وَلَا حَرَجَ ، قَالَ آخَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ ، قَالَ : انْحَرْ وَلَا حَرَجَ ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ : افْعَلْ وَلَا حَرَجَ .
میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ ﷺ سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( اب ) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا ۔ دوسرے نے کہا ، یا رسول اللہ ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( اب ) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں ۔ ( اس وقت ) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی ، آپ سے پوچھا گیا ، آپ ﷺ نے یہ ہی جواب دیا ( اب ) کر لو کچھ حرج نہیں ۔
Narrated `Abdullah: While I was going with the Prophet through the ruins of Medina and he was reclining on a date-palm leaf stalk, some Jews passed by. Some of them said to the others: Ask him (the Prophet) about the spirit. Some of them said that they should not ask him that question as he might give a reply which would displease them. But some of them insisted on asking, and so one of them stood up and asked, O Abul-Qasim ! What is the spirit? The Prophet remained quiet. I thought he was being inspired Divinely. So I stayed till that state of the Prophet (while being inspired) was over. The Prophet then said, And they ask you (O Muhammad) concerning the spirit –Say: The spirit — its knowledge is with my Lord. And of knowledge you (mankind) have been given only a little). (17.85)
Sahih Bukhari#126
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، قَالَ : قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ : كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا ، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ ، قُلْتُ : قَالَتْ لِي : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا عَائِشَةُ ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ : بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ ، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں ، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا ، میں نے کہا ( ہاں ) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ( ایک مرتبہ ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ ! اگر تیری قوم ( دور جاہلیت کے ساتھ ) قریب نہ ہوتی ( بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی ) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ ( قریب نہ ہوتی ) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا ۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے ، ( بعد میں ) ابن زبیر نے یہ کام کیا ۔
Narrated Aswad: Ibn Az-Zubair said to me, Aisha used to tell you secretly a number of things. What did she tell you about the Ka`ba? I replied, She told me that once the Prophet said, ‘O `Aisha! Had not your people been still close to the pre-Islamic period of ignorance (infidelity)! I would have dismantled the Ka`ba and would have made two doors in it; one for entrance and the other for exit. Later on Ibn Az-Zubair did the same.
Sahih Bukhari#127
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ عَلِيٍّ بِذَلِكَ .
مضمون حدیث «حدثوا الناس بما يعرفون» الخ بیان کیا ، ( ترجمہ گذر چکا ہے ۔ )
Narrated Abu at-Tufail: The above mentioned Statement of `Ali.
Sahih Bukhari#128
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ ، قَالَ : يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ، قَالَ : يَا مُعَاذُ ، قَالَ : لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا ، قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا ، قَالَ : إِذًا يَتَّكِلُوا ، وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا .
( ایک مرتبہ ) حضرت معاذ بن جبل رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا ، اے معاذ ! میں نے عرض کیا ، حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے ( دوبارہ ) فرمایا ، اے معاذ ! میں نے عرض کیا ، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے ( سہ بارہ ) فرمایا ، اے معاذ ! میں نے عرض کیا ، حاضر ہوں ، اے اللہ کے رسول ، تین بار ایسا ہوا ۔ ( اس کے بعد ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں ، اللہ تعالیٰ اس کو ( دوزخ کی ) آگ پر حرام کر دیتا ہے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ( اگر تم یہ خبر سناؤ گے ) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے ( اور عمل چھوڑ دیں گے ) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو ۔
Narrated Anas bin Malik: Once Mu`adh was along with Allah’s Apostle as a companion rider. Allah’s Apostle said, O Mu`adh bin Jabal. Mu`adh replied, Labbaik and Sa`daik. O Allah’s Apostle! Again the Prophet said, O Mu`adh! Mu`adh said thrice, Labbaik and Sa`daik, O Allah’s Apostle! Allah’s Apostle said, There is none who testifies sincerely that none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is his Apostle, except that Allah, will save him from the Hell-fire. Mu`adh said, O Allah’s Apostle ! Should I not inform the people about it so that they may have glad tidings? He replied, When the people hear about it, they will solely depend on it. Then Mu`adh narrated the above-mentioned Hadith just before his death, being afraid of committing sin (by not telling the knowledge).
Sahih Bukhari#129
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا ، قَالَ : ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِمُعَاذِ : مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ ، قَالَ : أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ ، قَالَ : لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا .
مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو ، وہ ( یقیناً ) جنت میں داخل ہو گا ، معاذ بولے ، یا رسول اللہ ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں ، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے ۔
Narrated Anas: I was informed that the Prophet had said to Mu`adh, Whosoever will meet Allah without associating anything in worship with Him will go to Paradise. Mu`adh asked the Prophet, Should I not inform the people of this good news? The Prophet replied, No, I am afraid, lest they should depend upon it (absolutely).
Sahih Bukhari#130
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هِشَامُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةِ أُمِّ سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ ، فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ تَعْنِي وَجْهَهَا ، وَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا .
ام سلیم ( نامی ایک عورت ) رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ( اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ( ہاں ) جب عورت پانی دیکھ لے ۔ ( یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو ) تو ( یہ سن کر ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ( شرم کی وجہ سے ) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا ، یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ، ہاں ! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے ( یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے )
Narrated Um Salama: Um-Sulaim came to Allah’s Apostle and said, Verily, Allah is not shy of (telling you) the truth. Is it necessary for a woman to take a bath after she has a wet dream (nocturnal sexual discharge?) The Prophet replied, Yes, if she notices a discharge. Um Salama, then covered her face and asked, O Allah’s Apostle! Does a woman get a discharge? He replied, Yes, let your right hand be in dust (An Arabic expression you say to a person when you contradict his statement meaning you will not achieve goodness ), and that is why the son resembles his mother.